جمعرات، 12 اکتوبر، 2023

باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق

 از: محمد شمیم اختر قاسمی، شعبہ سنی دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ

ایک باپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے بچوں کے ساتھ ہی اچھا برتاؤ کرے اور ان کے ساتھ شفقت و ہمدردی سے پیش آئے اس کی دلجوئی اوراس کے کھیل کود، سیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کرے بلکہ سماج کے اور دوسرے بچوں کے بھی اس کے دل میں محبت و ہمدردی ہونی چاہیے۔ اوراس کے برعکس چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ ادب و احترام کا مظاہرہ کریں۔ دراصل ایک گونہ ذمہ داری بڑوں کی ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں کی زندگی بنانے اور سنوارنے پر متوجہ ہوں۔ اس کو اچھی تعلیم دیں اوراس کی عمدہ سے عمدہ تربیت کریں لغویات سے بچائے رکھیں اور یہ تمام خوبیاں جو سراسر اخلاق پر مبنی ہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں بدرجہ اتم موجود تھی، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے حق میں بہت شفیق تھے، ان سے ہنسی کھیل کرتے،اور ان کی دل جوئی کرتے، ٹھیک یہی طرز عمل آپ کا تھا۔ اور ایسے لوگوں کو پسند کرتے جو بچوں کی دلجوئی اور دل بستگی کی باتیں کرتے تھے، اور ان کے سامنے وہی بات اور کام کرتے جس کا مثبت اثر بچوں کی ذات پر پڑے۔ یہاں تک کہ اپنے اقوال حکیمانہ سے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے کہ:

”باپ کا بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر حق ہے۔ باپ کا حق یہ ہے کہ بیٹا ہر حال میں اس کی اطاعت کرے، الا یہ کہ باپ کسی معصیت کی بات کا حکم دے، اس میں اس کا اتباع نہ کیا جائے، اور باپ پر بیٹے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، اچھی تربیت کرے اور قرآن پڑھائے۔“

آج ہمارے معاشرہ میں باپ اور بیٹے دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت ہے، اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور بعضے وقت صورت حال بہت خراب ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کیا ہوسکتی ہے کہ ہم نے اس اخلاقی تعلیمات کو سرے سے بھلارکھا ہے۔ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اور باغبان درخت کو بنانے اور سنورانے میں کتنی محنت اور جاں فشانی کرتا ہے ہم اور آپ سبھی جانتے ہیں۔ آج ہم بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے رجوع کرتے ہیں مغربی طریقہٴ تعلیم کی طرف اور قرآن جو سراپا ہدایت ہے اسے پس پشت ڈال رکھا ہے۔

بابے تے شہ کوئی نہیں؟

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی مولانا ابرار عالم عالمی روحانی ڈاکٹر 21 ویں صدی کے ایک نایاب روحانی معالج دین اسلام کے علمبردار او...