اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اسلام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

پیر، 6 نومبر، 2023

وضو میں داڑھی کے دھونے کا طریقہ

وضو کرتے وقت داڑھی دھونے کے حوالے سے ایک مسلم کو بہت پریشانی ہوتی ہے جسے صحیح طریقہ نہیں آتا۔ اس حوالے سے یہ چند ویڈیوز بہترین ہیں جنہیں دیکھنے اور سننے کے بعد ان شاء اللہ داڑھی کے سائز، اسے دھونے کا طریقہ اور کتنا حصہ دھونا فرض ہے اس حوالے سے کنفیوزن دور ہوجائے گی۔

 


ہفتہ، 21 اکتوبر، 2023

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں

تاریخی معلومات اور مسلمانوں کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق  حضورنبی کریم محمد رسول اعظمﷺ  کی مقدس اور پاک دامن  بیویاں تقریباً سب ہی مالدار اور بڑے گھرانوں سے تھیں۔

 حضرت ام حبیبہ  رئیس مکہ حضرت ابو سفیان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ 

حضرت جویریہ   قبیلہ بنی المصطلق کے سردار اعظم حارث بن ضرار کی بیٹی تھیں۔ 

 حضرت صفیہ بنو نضیر اور خیبر کے رئیس اعظم حیی بن اخطب کی نور نظر تھیں۔ 

حضرت عائشہ صدیقہ حضرت ابوبکر صدیق  کی  پیاری بیٹی تھیں۔

حضرت حفصہ حضرت عمر فاروق کی چہیتی صاحبزادی تھیں۔

 حضرت زینب بنت جحش اور حضرت اُمِ سلمہ بھی خاندانِ قریش کے اونچے اونچے گھروں کی ناز و نعمت میں پلی ہوئی تھیں۔ 

یہ سب بچپن سے امیرانہ زندگی اور رئیسانہ ماحول کی عادی تھیں اور ان کا رہن سہن، کھانا پینا، لباس و پوشاک سب کچھ امیروں جیسی زندگی کا آئینہ دار تھا اور محمد رسول اعظم  کی مقدس اورپاک زندگی بہت ہی سادہ اور دنیاوی تکلفات سے یکسر خالی تھی۔

 دو دو مہینےحضور کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا اور  صرف کھجور اور پانی پر پورے گھرانے کی زندگی بسر ہوتی تھی۔

 لباس و پوشاک میں بھی پیغمبرانہ زندگی کی جھلک تھی ۔

مکان اور گھر کے سازو سامان میں بھی نبوت کی سادگی نمایاں تھی۔ 

حضور  اپنی رقم کا اکثر حصہ اپنی امت کے غریبوں پر خرچ کردیتے تھے  اور اپنی بیویوں کو صرف بقدر ضرورت رقم ادا کرتے تھے لہذا  ان کی بیگمات کی زیب و زینت اور بناو سنگھار کے لیے وہ رقم کافی نہ ہوتی تھی جبکہ حضور کی بیویوں کے مقابلہ پر آج مالدار مسلم عورتوں کے پاس اسقدر دولت ہے کہ اپنےبناو سنگھار کے لیے بیوٹی پارلر جاکر ماہانہ ہزاروں روپے خرچ کردیتی ہیں اور ہرسال عید تہوار اور دیگر تقریبات کے لیے الگ الگ مہنگے جوڑے خرید کر پہنتی ہیں۔

کائنات کے بادشاہ اللہ واحد القہار کے محبوب رسول اعظم ﷺ کی بیگمات یعنی امہات المومنین  نے متفقہ طور پر آپسے مطالبہ کیا کہ ان کے اخراجات میں اضافہ فرمادیں۔

یہ بات حضور کے دل پر بہت بھاری گزری کیونکہ حضور ﷺ غلبہ اسلام کے مشن پر کام کررہے تھے اور ان کے سکون اور اطیمنان میں رکاوٹ پیش آگئی کہ دنیاوی سازو سامان اور زینت و آرائش کی خاطر اگر پیسوں کا انتظام کرنا پڑے گا تو دین اسلام کا کام کیسے ہوگا ؟ اور امت کے غریبوں کو کیسے فائدہ پہنچایا جائے گا؟ اور غیرمسلموں کو اسلا م میں کیسے داخل کرنے پر توجہ دی جائے گی؟ لہذا حضور نے یہ قسم کھالی کہ اب ایک ماہ تک اپنی  بیویوں سے ملاقات اور بات چیت نہیں کریں گے اور پھر حضور نے ایک ماہ تک اس پر عمل کیا، اسے "ایلاء" کہتے ہیں۔

اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مالدار مسلم عورت کا مسلم شوہر غلبہ اسلام کے مشن پر کام کررہا ہو اور اس مسلم عورت کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اپنے اخراجات آسانی سے پورے کرسکتی ہے اور اس کے پاس ضرورت سے زیادہ دولت اور گھریلو ساز و سامان بھی رکھا ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے ایسے عظیم شوہر کی قدر کرے اور اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے اور اسے ہرگز پریشان  اور تنگ نہ کرے تاکہ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ واحد القہار کے مشن غلبہ اسلام پر بھرپور توجہ کے ساتھ کام جاری رکھ سکے۔

بے شک اللہ کسی نیک مسلم عورت کی نیکیاں ضائع نہیں کرتا اور بے حد قدر کرتا ہے اگر وہ اپنے شوہر کی خدمت کرے اور اس کا خیال رکھے اور اس کے شوہر کو بھی چاہیے کہ اگر اسے خدمت گزار اور خیال کرنے والی بیوی ملی ہے اللہ کے فضل سے تو وہ بھی اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کے ذہنی سکون کا خیال رکھے، اس کو آخرت کے حوالے سے تعلیم و تربیت کرے اور اسے بھی جنت کے محلات میں لے جانے کے لئے کوششیں کرے  اور اپنے بچوں کی تربیت کا بھی خیال رکھے تاکہ شیطان انہیں اللہ سے بدگمان اور اسلام سے بدظن نہ کرسکے۔ بے شک اللہ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔

اللہ اکبر
اللہ واحد القہار
الحمدللہ رب العالمین

جمعرات، 12 اکتوبر، 2023

خلفائے راشدین آف اسلام کے کارنامے اور مسلمانوں کے لیے آئیڈیاز

 اس لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خلفائے راشدین جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ شاگرد تھے وہ امت کے مسلمانوں اور غیرمسلموں کے لیے کس قسم کے کام سرانجام دے کر چلے گئے۔ اس فہرست کے ذریعہ ایسے تمام مسلمان جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی آخرت کی زندگی بہتر بنانے کے لیے اس فزیکل ورلڈ میں کس قسم کے کام سرانجام دیں تو یہ لسٹ ان شاء اللہ انہیں کفایت کرے گی کیونکہ اس میں صرف خلفائے راشدین کا انتخاب کرکے ان سے متعلق کارناموں کوانٹرنیٹ سے ریسرچ کرکے جمع کردیا گیا ہے اللہ کے فضل و کرم سے ۔ 

ان میں کونسی باتیں سچ ہیں یا جھوٹ اس سے قطعی نظر مقصد صرف یہ ہے کہ نیکی کے کام کرنے کے لیے مسلمان جس عہدہ پر بھی ہو اسے آسانی ہوسکے ان شاء اللہ اور خلفائے راشدین کی عظمت اور شان و شوکت کا بھی اندازہ ہوسکے کہ وہ کس قدر اعلی لیول پر ہونے کے باوجود کس قسم کے کام کرتے تھے  اور ان کا مقصد صرف اللہ کو راضی کرنا تھا لہذا ہم سب کو اپنا کردار اس آئینے میں دیکھنا بھی چاہیے۔ 

الحمدللہ رب العالمین، اللہ اکبر، اللہ واحد القہار

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کارنامے

حضور نبی رحمت ﷺ کے وصال کی خبر سن کر کافی قبیلوں نے سرکشی کر دی لوگ مرتد ہونا شروع ہو گئے ،بعض نے زکوٰة اور نماز ادا کرنے سے انکار کر دیا، ملک کے بیشتر حصوں سے مدعیانِ نبوت اٹھ کھڑے ہوئے جن میں طلیحہ بن خویلد، اسود عنسی، سجاح بنت حارثہ اور مسیلمہ کذّاب بہت مشہور ہیں انہوں نے اسلام کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی جماعتیں بنانا شروع کر دیں حضرت ابوبکر صدیق ؓنے پہلے متعدد پیغامات بھجوائے کہ وہ اپنے اس غلط دعوے کو مسترد کر دیں لیکن جب انہوں نے آپکی بات کا انکار کیا تو آپ نے لشکر کیساتھ حملہ کیا اور ان کذّابوں کو نیست و نابود کر دیا۔

حضرت عمرؓ کی تحریک پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے قرآن کریم تحریری صورت میں لکھوا کر اسے مسجد نبویؐ میں رکھوا دیا جس سے قرآن کریم کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا اور اس میں کسی تحریف اور ردوبدل کا دروازہ بھی بند ہو گیا کہ مسجد نبویؐ میں موجود سرکاری اور اسٹینڈرڈ نسخہ کی موجودگی میں کسی کو جرأت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم میں اپنی طرف سے کوئی ردوبدل کر کے اسے عام کر سکے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال کا نظام قائم کر کے ریاست کے عام شہریوں بالخصوص معذوروں اور مستحقین کی کفالت کا جو نظام دیا تھا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اس سلسلہ کو آگے بڑھایا اور ایسی بنیادیں فراہم کر دیں جس سے رفاہی ریاست اور ویلفیئر اسٹیٹ کا وہ نظام حضرت عمرؓ کے دور میں منظم ہو کر دنیا کے لیے ایک مثالی اور آئیڈیل رفاہی نظام کی شکل اختیار کر گیا۔

آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایران اور روم کی دو عظیم سلطنتوں کو متعدد شکستیں دے کر ملت اسلامیہ کے وقار اور دبدبے کا ڈنکا بجا دیا۔

آپ ؓکی خلافت کے آغاز سے ہی کافی قبیلوں نے سرکشی شروع کر دی تھی لوگ بغاوت کرنے لگ گئے تھے ملت اسلامیہ پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے روم و ایران کی سرحدیں غیر محفوظ ہو گئیں اسی اثنا میں آپ نے عزم اور بہادری کیساتھ تمام منکرین اور دعویداروں کو ان کی اوقات یاد دلا دی اور اسلام کی سرحدوں اور اسکی روایات کی حفاظت فرمائی اور باطل کے ایوانوں کو بتا دیا ہم حضور ﷺ کیساتھ بھی اس دین کا پہرا دیا کرتے تھے اور اب بھی ہمہ وقت اس کے دفاع کے لیے تیار ہیں ۔ دین اسلام کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ نکال دی جائے گی ۔

 ملت اسلامیہ کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے اس کو متعدد صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کر دیا اور ان تمام علاقہ جات پر گورنر مقرر کر دیئے آپؓ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ ایک شخص ایک جگہ بیٹھ کر بآسانی سارے معاملات کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے اگر علیحدہ علیحدہ لوگ مقرر کیے جائیں گے تو لوگوں کے تمام تر معاملات کو توجہ کیساتھ دیکھا جائے گا، آپ نے علیحدہ علیحدہ قاضی مقرر کیے، سپہ سالار بنائے جو اپنی مقرر کردہ جگہ پر لگائی گئی ذمہ داریوں کو سر انجام دیتے تھے، کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو ان کو عدل اور رواداری کیساتھ انصاف دیا جاتا کسی کو بھی کسی کا حق مارنے کی اجازت نہیں تھی چاہے وہ جتنا بڑا بھی عہدیدار ہو، رشوت کسی بھی معاملہ میں نہیں لی جاتی تھی کسی کو شکایت کرنے کے لئے کسی کی شفارش کی ضرورت نہیں ہوتی تھی وہ خود جا کر خلیفہ وقت سے سوال کر سکتا تھا۔

مالیات کا جو نظام عہد نبوی ﷺ سے چلا آ رہا تھاحضرت ابو بکر صدیقؓ نے ابتداءسے تووہی نظام جاری رکھا رقم آتی تو اس کو عوامی بہبود و فلاح کے لئے خرچ کر دیا جاتا یا پھر تقسیم کر دیا جاتا لیکن بعد میں آپ نے بیت المال کے لئے ایک عمارت تعمیر کروائی جس ساری رقم کو رکھا جاتا تھا جب حضرت عمر رضی اللہ مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے بیت المال کی عمارت کا حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے ہمراہ دورہ کیا تو وہاں صرف ایک درہم برآمد ہوا پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں جو بھی رقم آتی تھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کو یا تو عوام کی فلاح کے لیے خرچ کر دیتے یا پھر تقسیم کر دیتے۔

باقاعدہ فوج کو ساز و سامان مہیا کرنے کا انتظام کیا اونٹوں اور گھوڑوں کے لیے ایک چراگاہ بنائی، مال غنیمت کا ایک حصہ فوجداری نظام کے لیے مقرر فرمایا جہاں کوئی کمی بیشی نظر آتی خود اصلاح فرماتے آپ کا قائم کردہ یہ فوجی نظام ملت اسلامیہ کے لیے بہت ہی کارآمد ثابت ہوا اور اسکی بدولت بہت سے اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دیا روم اور ایران جیسی بڑی سلطنتوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

مسائل کی تحقیق و تدوین کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس میں حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت معاذ بن جبلؓ کی ذمہ داری لگائی وہ وہاں لوگوں کے مسائل سنتے اور قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے فرماتے اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کے گھروں میں پیش آنے والے روزمرہ کے مسائل اور جھگڑے کم ہو گئے کسی کو کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو انصاف کیساتھ اس کے حق میں فیصلہ کیا جاتا کسی کے حق میں غیر منصفانہ فیصلہ نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک کوئی بڑا ہو یا چھوٹا سبھی برابر ہوتے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کارنامے

عراق، مصر ، لیبیا ، سرزمین شام ، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان فتح ہو کر مملکت اسلامی میں شامل ہوئے اور اس کا رقبہ بائیس لاکھ اکاون ہزار تیس (22,51,030) مربع میل پر پھیل گیا۔

پہلی مرتبہ یروشلم فتح ہوا، اس طرح ساسانی سلطنت کا مکمل رقبہ اور بازنطینی سلطنت کا تقریباً تہائی حصہ اسلامی سلطنت کے زیر نگین آ گیا

آپ کی عدالت میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو یکساں انصاف ملا کرتا تھا۔

موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔

مسجدوں میں روشنی کا بندوبست کروایا۔

پولیس کا محکمہ بنایا۔

عدالتی نظام کی بنیاد رکھی۔

آب پاشی کا نظام قائم کروایا۔

فوجی چھاونیاں بنوائیں اور فوج کا محکمہ قائم کیا۔

دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواوں اور بے آسراوں کے وظائف مقرر کئے۔

دنیا میں پہلی بار حکمرانوں، سرکاری عہدیداروں اور والیوں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا۔

بے انصافی کرنے والے ججوں کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کی اکاونٹبلٹی شروع کی۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے کارنامے

قرآن کے متعدد نسخے تیار کرکے مختلف صوبوں میں بھیجے اور امت کو ایک مصحف پر جمع کیا۔ اس کارنامے کی بدولت آپ کو ’’جامع القرآن‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔

 جگہ جگہ ضرورت کے تحت سڑکیں اور پل تعمیر کرائے۔

مفتوحہ علاقوں اور ملکوں میں مساجد اور دینی مدارس قائم کئے۔ 

ملک شام میں سمندری جہازوں کے بنانے کا کارخانہ قائم کیا۔

 مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند تعمیر کرایا۔

 جگہ جگہ پانی کی نہریں نکلوائیں۔

 مدینہ اور دوسرے شہروں میں نئے کنویں کھدوائے۔

  تعمیرات عامہ کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی سرکاری عمارتیں، سڑکیں وغیرہ تعمیر کرائیں۔

کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے کارنامے

 عربی گرامر کے موجد ہیں۔

مسلمان کون ہے؟

 از: محمد شمیم اختر قاسمی، شعبہ سنی دینیات، اے ایم یو، علی گڑھ

 مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں، الا یہ کہ دین و احکام شریعت ہی کا تقاضا ہو کہ مسلمان کا احتساب کیا جائے اوراس پر قانون شرعی جاری کیا جائے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی مسلمان کو ایذا پہنچائے، الا یہ کہ ایسا کرنا واجب ہو، عوام و خواص دونوں کے حقوق ادا کرنے میں عجلت سے کام لیجیے، لوگ آپ کے سامنے ہیں اور پیچھے قیامت ہے جو آگے بڑھ رہی ہے، اپنے آپ کو ہلکا پھلکا رکھیے کہ منزل تک پہنچ سکیں، آخرت کی زندگی لوگوں کی منتظر ہے، خدا کے بندوں اور ان کی سرزمین کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہیے، بہائم اور زمین کے بارے میں بھی (قیامت میں) آپ سے سوال ہوگا، پھر میں کہتا ہوں کہ اللہ کی اطاعت کیجیے اور اس کی معصیت و نافرمانی سے بچئے، اگر آپ خیر کا کام دیکھیں اس کو اختیار کریں اور اگر شر دیکھیں تواس کو چھوڑ دیں: ”وَاذْکُرُوْا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُسْتَضْعَفُوْن فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ“ (اور یاد کرو جس وقت تم تھوڑے تھے مغلوب پڑے ہوئے ملک میں ڈرتے کہ اچک لیں تم کو لوگ پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا اور قوت دی تم کو اپنی مدد سے اور روزی دی تم کو ستھری چیزیں تاکہ تم شکر کرو۔ ”انفال“)

جمعہ، 17 جنوری، 2020

اکثر مسلم خوف ذدہ ہیں

چونکہ اکثر مسلم مذہبی پیشوا اور ان کے پیروکار اپنی بداعمالیوں کو خوب جانتے ہیں اس لیے وہ  اس یقین کامل سے محروم ہیں کہ اللہ آج بھی مردہ زندہ کرسکتا ہے، چاند دو ٹکڑے کرسکتا ہے، سمندر پھاڑ سکتا ہے، پہاڑ بلند کرسکتا ہے، آگ بے اثر کرسکتا ہے، سورج روک سکتا ہےوغیرہ وغیرہ۔

اسی لیے وہ ماضی کی کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اندر سے ڈرتے ہیں اور غیرمسلموں کو معجزات پر چیلنج کرنے کےلیے انتظامات نہیں کرواتے بلکہ الٹا  ہماری مخالفت کرتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ بے شک یہ لوگ خود ہی ایمان کے کمزور اور بزدل ہیں۔

جمعہ، 23 جون، 2017

اللہ کے مخلص مومن بندےمعاشرے میں نظر کیوں نہیں آتے؟

میں اللہ کے کام کرنے کےکچھ  طریقے اپنے علم کے مطابق خوب جانتا ہوں۔اگر اللہ کو دنیا میں خود ہی سب کچھ کرنا ہوتا تو آن کی آن میں ساری دنیا کی کایا پلٹ سکتا ہے۔مگر وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس کام کیلئے اس نے انسان کو اپنا نائب بناکر بھیجا ہے اور یہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمانوں پر ایک بہت بھاری ڈیوٹی ہے کیونکہ دنیا کے غیر مسلموں کے ہاتھوں اکیسویں صد ی میں  گلوبل ولیج بناکر اللہ نے مسلمانوں پر ظاہری وسائل اور ٹیکنالوجی فراہم کرکے بہت بڑا احسان کیا ہے کہ وہ آسانی سے گھر بیٹھے ہی دنیا بھر کے کفار و مشرکین کے سامنے دین اسلام کے معجزاتی دلائل اور روشن نشانیاں پہنچانے کی کوشش کرسکیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ فرقوں میں بٹے اکثر مسلمان دین اسلام کو کیا خاک غالب کرینگے بلکہ اکثر فرقہ پرست مسلمان تو ایک دوسرے کو ہی کافر و مشرک بنانے کی ڈیوٹی سر انجام دینے میں مصروف ہیں  اور معمولی مسائل پر لڑرہے ہیں۔

اس لیے دین اسلام کے حقیقی کام کو سمجھنا اور اس پر کام کرنا کم از کم کسی فرقی مسلمان کے بس کی بات ہرگز نہیں کیونکہ وہ پہلے یہ دیکھتا ہے کہ کیاکوئی مسلم اس کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو نفرت سے نظرانداز کردے گا ۔

اس طرح مخلص مومن بندے کو اکثریت کی جانب سے نظرانداز ہونا اور تنہا رہ جانے کا تجربہ ہوتا ہے تو وہ بھلا معاشرے میں کیسے نظر آئے گا ؟

 رہ گئے  دنیا دار مسلمان جنہیں مذہب سے خاص لگاو نہیں تو ان سے اسلام غالب کروانے میں ساتھ ہوجانے کی امید میں محنت کرنے کے بعد تاحال مجھے بھی کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہوئی  تو کیا  یہ لوگ کسی مخلص مومن بندے کو سپورٹ کریں گے جو حق اور سچ بغیر ملاوٹ کے بولتا ہو اور کھلم کھلا اعلان کرتا ہو کہ تمام غیرمسلم ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائیں گے ، تمام غیرمسلموں کے تمام معبود باطل ہیں اور اکثر مسلم جھوٹے اور دھوکہ بازی کرنے والے ہیں؟ 

نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔تو جب سپورٹ نہیں ملے گی تو وہ بھلا معاشرے میں کیسے نظر آئیں گے؟

اللہ جس کو چاہے اپنے دین اسلام کیلئے استعمال کرسکتا ہے اس لیے میں بھی اپنے طور پر غیرمسلموں تک دین اسلام کی سچائی پر ناقابل شکست ثبوتوں کو پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں لیکن فرقہ پرست مسلمانوں اور دنیا دار مسلمانوں سے ہٹ کر جتنے بھی دیگر مسلمان کسی سیاسی یا دیگر جماعتوں سے وابستہ ہیں ان کی جماعتیں دنیا میں کچھ خاص کام نہیں کرسکیں اور نہ کر پارہی ہیں کیونکہ وہ اتنا ہی آگے بڑھ سکتے ہیں جتنا غیر مسلم قوتیں چاہتی ہیں یعنی کہ ابلیس کے پیروکار۔ اسی لیے یہ جماعتیں صرف احتجاج ، رونا پیٹنا، تقاریر وغیرہ کرکے لوگوں سے ہمدری اور مال بٹور سکتی ہیں مگر دین اسلام غالب کرنا یا دنیا کے مظلوم مسلمانوں کو کفار کے ظلم و ستم سےعملی طور پر نجات دلانا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی کیونکہ ان کے پاس اس کا سو فیصد حل موجود ہی نہیں ہے، نہ مادی قوت، نہ روحانی قوت ۔ اس لئے ناکام ہیں۔

اب وہ چند فیصد جماعتیں جو بالکل ہی غیر سیاسی بن کر صرف اللہ ہو ، سنتیں اور تبلیغ کے نام پر کام کرتی ہیں تو ان کے کام اسی لئے جاری و ساری ہیں کہ یہ لوگ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی طرز پر کام نہیں  کررہے ورنہ ان کا ٹکراو ظلم کے نظام کے خلاف نظر آتا۔یہ لوگ تو اس سوچ کے تحت چلتے ہیں کہ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور کسی کا عقیدہ چھیڑو نہیں۔اس لئے مذہبی اور غیر سیاسی جماعتوں کی اکثریت کے باوجود ٹیپو سلطان، محمد بن قاسم، شیر شاہ سوری، عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ، امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسی طرز پر معاشرے میں مسلمان نظر نہیں آرہے۔

 آخر میں وہ مجاہدین اسلام جو اللہ کیلئے مخلص ہیں اور اللہ کی مدد کے سہارے اپنا کام کررہے ہیں تو ان کے خلاف غیرمسلموں کا میڈیا چلتا ہے اور دنیا بھر کامیڈیا یہودیوں کے اشاروں کا غلام ہے ۔

یہودی بہت شاطر قوم ہے وہ صرف جنگوں کے ذریعے لڑائی نہیں کرتے بلکہ انہوں نے عورتوں کے ذریعے بھی نوجوان مسلمانوں کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ یہ کافروں کے خلاف عملی طور پر  کچھ کرسکیں لہذا یہ اخلاقی و معاشی طور پر تباہ ہوچکے ہیں تو مومن بندے  بھلا معاشرے میں کیسے نظر آئیں گے  ؟

ایسے حالات میں اگر کوئی مسلمان یہ کائناتی سوچ رکھے کہ وہ اکیلا حضرت محمدصلی اللہ علیہ کی امت کیلئے عالمی سطح پر کچھ کرے تو اس کا ٹکراو مخلص مجاہدین اسلام کے علاوہ باقی تمام طبقات کے انسانوں اور جنات سے لازمی طور پر ہوگا  لیکن وہ یاد رکھے کہ اکثر مسلم اپنے دنیاوی مفادات، موت کے خوف یا 

بدھ، 21 جون، 2017

دنیا بھر کے مسلمان اکیسویں صدی میں عالمی طاقت کیوں نہیں بن پارہے ؟

 میرے علم ، فراست اور دنیا پر نظر کے مطابق فرقہ پرست مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی کوششیں اپنے فرقوں کی ترقی اوردیگر فرقوں کو کافر و مشرک قرار دینے تک محدود کرلی ہیں جبکہ  دنیا کی طرف ذیادہ رجحان اور لگاو رکھنے والے اکثر مسلمانوں کو دین اسلام  تمام باطل ادیان و مذاہب پر غالب کرنے سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے لہذا روئے زمین پر تقریبا ستر فیصد غیرمسلموں کے سامنے مسلمانوں کی تقریبا پچیس فیصد آبادی ناکارہ ہوچکی ہے۔ باقی کے پانچ فیصد مسلمانوں میں سے کتنے فیصد سو فیصد اخلاص کے ساتھ غلبہ اسلام کے لیے کوششیں کررہے ہیں وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔

اسی لیے عملی طور پر مسلمان اکیسویں صدی میں عالمی طاقت نہیں بن پارہے   نیز میں بغیر کوشش کے خالی دعاوں کا قطعی قائل نہیں۔یہ انبیاء کرام کا طریقہ نہیں اور نہ ہی اللہ کا ۔اگر ایسا ہوتا تو  تقریبا دو ارب مسلمانوں کی صرف دعاوں سے دنیا کی کایا پلٹ چکی ہوتی اللہ کے حکم سے۔ 

اگر اللہ کے وعدے پر بغیر کوشش کیے ہی بیٹھنا اسلام کی حقیقی تعلیمات ہوتیں تو حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کرام عملی طور پر جنگوں کے میدان کے بجائے مصلے بچھاکر دعاوں کے ذریعہ معجزات و کرامات کے بل بوتے پر سارے کارنامے سرانجام دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔یہاں تک کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد  حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی عملی طور پراسلام کو غالب کرنے میں مصروف رہےاور مسلم دنیا جانتی ہے کہ انہوں نے اسلام کو کس قدر غالب کیا تھا اللہ کی مدد اور حکم سے  تو  کیا یہ سارے کام صرف دعاوں سے ہوئے ؟

آج اکیسویں صدی میں رہنے والے مسلمانوں کی اکثریت سے   آپ اسلام غالب ہوجانے کی امید لگائیں گے؟

ان کا مقصد اپنے اپنے فرقوں ، جماعتوں، تنظیموں ، اداروں وغیرہ کی تبلیغ اور چودہراہٹ قائم کرنا، مخالفین کو کافر و مشرک قرار دینا، علمی اختلاف کرنے والے کو دشمن اسلام سمجھ کر اس کے خلاف جھوٹے  بیانات اور سازشیں کرنا اور اپنے ہاتھ میں قرآن و حدیث لے کر خود کو اسلام کا ٹھیکے دار ثابت کرکے چندہ، خیرات و   صدقات کے ذریعہ عوام کو دھوکے میں رکھنا ہے۔

علمائے حق تو آج بھی موجود ہیں لیکن مجموعی طور پر فرقہ پرستی کے زہر میں ڈوبے  فرقی مسلمانوں میں نفرت کی آگ اس قدر بھیانک طریقے سے بھڑک رہی ہوتی ہے کہ یہ دوسرے فرقے کے مسلمان کو برداشت کرنا تو بہت دور کی بات ہے، اسے مسلمان ہی نہیں مانتے اسی لیے اس کو دوبارہ مسلمان کرکے اپنے فرقے میں گھسیٹنے کے لیے کوششیں کررہے ہوتے ہیں تو یہ اپنی توجہ غلبہ اسلام پر کدھر سے لے کر جائیں گے؟

امید ہے کہ اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ دنیا بھر کے مسلمان اکیسویں صدی میں عالمی طاقت کیوں نہیں بن پارہے ؟   ایسے حالات میں دنیا میں تبدیلی دیکھنے کے خواہشمند اکثر مسلم صرف خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور یہ حقیقت ہمارے لیے ایک زناٹے دار تمانچہ ہے۔

بابے تے شہ کوئی نہیں؟

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک امتی مولانا ابرار عالم عالمی روحانی ڈاکٹر 21 ویں صدی کے ایک نایاب روحانی معالج دین اسلام کے علمبردار او...